فرنٹیئر اسٹیشنز از شکیل درانی | Frontier Stations by Shakeel Durani|
فرنٹیئر اسٹیشنز از شکیل درانی | Frontier Stations by Shakeel Durani|
پیش لفظ
رئوف کلاسرا
برسوں پہلے شکیل درانی صاحب سے میرا پہلا تعارف ہی ایسا ہوا تھا کہ میں بڑے عرصے بعد کسی بیوروکریٹ کو داد دینے پر مجبور ہوا تھا۔ روایتی طور پر بیوروکریٹ معاملات کو ایک سرکاری ٹینڈر کی طرح جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چلانے کے قائل ہوتے ہیں۔ زیادہ خطرات یا ایڈونچر کرنے کے حق میں نہیں ہوتے لہذا شکیل درانی نے جب اس روایت کو توڑا تو خوشگوار حیرانی ہوئی۔
دراصل یہ قومی اسمبلی کی ریلوے کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس تھا۔میں وہاں خود موجود تھا اس اجلاس کی رپورٹنگ کرنے ۔
ایک حساس موضوع زیربحث تھا۔ لاکھوں ڈالرز کے قرضے سے جنرل مشرف کے ابتدائی دو سالوں دور میں چین سے منگوائے گئے ناقص ریلوے انجن اور بوگیاں۔ یہ جنرل مشرف دور کا پہلا بڑا سکینڈل تھا۔ برسوں بعد بھی اس کی انکوائری چل رہی تھی کہ ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔
کوئی بھی بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنے کو تیار نہ تھا۔ برسوں سے یہ کھیل چل رہا تھا کہ ذمہ دار کون ہیں۔ نام تو شاید سب کو معلوم تھے لیکن جرات کوئی نہیں کررہا تھا کہ وہ نام لے دیں۔ سب چہرے خوفزدہ اور سہمے ہوئے۔
اس اجلاس میں چیرمین قائمہ کمیٹی اور ممبران اسمبلی بڑی دیر سے شکیل درانی صاحب پر چڑھائی کیے ہوئے تھے کہ وہ ان ذمہ دار افسران کے نام بتائیں۔ شکیل درانی صاحب نے کوشش کی کہ وہ آفیشل انداز میں بات سمجھانے کی کوشش کریں۔ پوری وضاحت اور پس منظر بیان کریں۔ لیکن جب ممبران کا اصرار بڑھا تو وہ بولے ٹھیک ہے میں نام بتادیتا ہوں۔آپ پھر کاروائی کرلیں۔
ممبران بولے جی بتائیں پھر آپ دیکھیں ہم کیا کرتے ہیں۔
شکیل درانی نے انہیں تین سابق ٹاپ فوجی جرنیلوں کے نام بتائے جو جنرل مشرف کے بہت قریبی تھے اور ان دنوں وہ تینوں ریلوے کو چلا رہے تھےجب چین سے ان ناقص ریلوے انجنوں اور بوگیوں کو منگوایا گیا تھا جس پر لاکھوں ڈالرز ضائع ہوئے۔
ان تین جرنیلوں نام سنتے ہی کمیٹی ممبران کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ سب خاموش۔
مجھے ایک بیوروکریٹ کی ہمت اور جرات نے متاثر کیا جس نے بلاجھجک ان تین جرنیلوں کے نام میڈیا کی موجودگی میں سب ممبران سامنے کھول کر رکھ دیے تھے۔
پاکستان کے تناظر میں یہ کام آسان نہ تھا۔ جہاں پوری پارلیمنٹ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی تھی لیکن کم از کم ایک افسر نے اپنا کیرئیر دائو پر لگا کر نام پبلک کر دیے تھے۔
اس واقعے کے بڑے عرصے بعد اب اسلام آباد کے ایک بک اسٹور پر ان کی آٹوبائیوگرافی پر نظر پڑھی تو فورا خرید لی اور سب کام چھوڑ کر اسے پڑھنا شروع کیا کیونکہ پاکستان میں سول ملٹری بیوروکریٹس/افسران میں خودنوشت لکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کی زیادہ عمر سروس میں گزر جاتی ہے جہاں ہر فائل کو سیکریٹ سمجھ کر ڈیل کیا جاتا ہے جو آخرکار آپ کی عادت بن جاتی ہے۔ روزمرہ کی گفتگو کو بھی راز سمجھا جاتا ہے۔ لہذا اس ماحول میں جب افسران ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو بھی وہ برسوں کی عادت کے غلام بن چکے ہوتے ہیں۔ یوں وہ کتاب لکھنے بارے سوچ بھی نہیں سکتے جس میں کچھ راز افشاں ہونے کا اندیشہ ہو۔ کتاب پڑھنے اور لکھنے کا کلچر ویسے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں کچھ عرصے بعد بڑے بڑے اہم لوگ اپنے ساتھ قیمتی واقعات اور راز سمیت گم ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ اور یورپ حتی کہ بھارت میں سیاستدان یا افسران ضرور اپنی یاداشتیں قلم بند کرتے ہیں۔
خیر شکیل درانی ان چند افسران میں سے ایک ہیں جنہوں نے جرات کر کے اس نفیساتی بیرئیر کو توڑا کہ ایک سول افسر کو ساری عمر سر جھکا کر پہلے نوکری اور پھر ریٹائرمنٹ بعد خاموشی سے بقیہ دن بسر کرنے ہیں۔ کتاب لکھنا اور پوری ایمانداری سے لکھنا یقینا مشکل کام ہے جس سے دوست دشمن دونوں کی ناراضی کا خطرہ رہتا ہے۔
مجھے بھارتی وزیراعظم نہرو کی بات یاد آتی ہے کہ اپنے بارے لکھنا مشکل کام ہے۔ اپنی تعریف کریں تو پڑھنے والے کا دل دکھتا ہے۔ اپنی تعریف نہ کرو تو اپنا دل دکھتا ہے۔
شکیل درانی نےجس طرح پاکستانی بیوروکریسی اور سیاست اور سیاستدانوں کی روداد لکھی ہے اس نے مجھے کئی دنوں تک اپنے حصار میں لیے رکھا۔ پاکستانی معاملات یا گورنس ایک طرف لیکن انہوں نے انگریز دور کے ناقابل فراموش واقعات اور بھولی بسری دردناک کہانیوں کو جس طرح قلم بند کیا ہے ان
پر تو بلاک بسٹر فلمیں بن سکتی ہیں۔ انہوں نے حقیقی زندگی کے وہ سکرپٹ لکھ ڈالے ہیں جنہیں اگر کوئی قابل پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ملا تو وہ بلاک بسٹر فلمیں ثابت ہوں گی۔ میں نے تو ان کی یاداشتوں کو ایسے ہی پڑھا ہے خصوصا جب انگریزوں کی نسلیں/بچے کئی دہائیوں بعد قبائلی علاقوں اور خیبرپختون خواہ کے ان بھولے بسرے علاقوں میں واپس آئے جہاں ان کی اپنی اور والدین کی یادیں دفن تھیں۔ کئی جگہ تو میں اپنے آنسو نہ روک سکا۔
پاکستان بننے سے پہلے قبائلیوں اور انگریزوں کے درمیان جاری خونی کشمکش کو جس خوبصورتی سے شکیل درانی نے نئی زبان اور نیا لہجہ دیا ہے وہ پڑھنے لائق ہے۔ انہوں نے تاریخ میں ان واقعات کو قلم بند کر دیا ہے جو آنے والی نسلوں کو اس خطے کی تاریخ کو پڑھنے اور سمجھنے میں مدد دیں گے۔ ایک سنسنی خیز کتاب جسے آپ پڑھنا شروع کریں تو نیچے نہ رکھ پائیں۔
اس کتاب کا اردو ترجمہ جو محمد صدیق پراچہ صاحب نے کیا ہے وہ میں نے اسلام آباد سے لندن سفر میں پڑھنا شروع کیا اور اس میں ایسا کھویا کہ پتہ نہ چلا کب جہاز ہتھیرو ائرپورٹ پر اترا۔
ترجمہ کرنا ایک مشکل کام اور فن ہے۔ اچھا ترجمہ لہو مانگتا ہے۔ یقینا صدیق پراچہ نے اپنا حق ادا کیا ہے۔ ایک اچھی کتاب جو اس ملک کی حکمران اشرافیہ کے راز کھولتی ہے، کہیں آپ کا دل دکھتا ہے، تو وہیں یہ خودنوشت آپ کو کئی خوبصورت کرداروں سے بھی معتارف کراتی ہے—شکیل درانی کی اپنی زندگی میں جو معجزے ہوئے وہ پڑھ کر آپ کے اپنے بدن میں سنسنی پیدا کر دیتے ہیں جنہیں پڑھ کر آپ کو انسانی تقدیر پر ایمان آ جاتا ہے یا ماریو پزو کے ناول گاڈ فادر کی وہ لائن یاد آتی ہے کہ ہر انسان کی ایک منزل ہوتی ہے۔ وہ چاہے نہ چاہے دھیرے دھیرے اس کی طرف ہی سفر کرتا رہتا ہے۔درانی صاحب کی زندگی کا غیرمعمولی سفر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔
مجھے خوشی ہے ایک بیوروکریٹ نے ہمت دکھائی۔ جرات کی اور ہماری اور مستقبل کی نسلوں کے لیے اپنے تجربات اور واقعات اس دلچسپ اور ڈرامائی انداز میں بیان کیے ہیں کہ آپ کو لگتا ہے آپ کتاب نہیں پڑھ رہے بلکہ شاید Netflix پر تھرلر، سپنس ، رومانس اور ایکشن سے بھرپور ایک سیزن/بلاک بسٹر فلم دیکھ رہے ہیں۔
قیمت 2000 روپے
Share
Top Pick of The Month