Skip to product information
1 of 1

انار کلی | مرزا حامد بیگ | Anarkali

انار کلی | مرزا حامد بیگ | Anarkali

Regular price Rs.450.00 PKR
Regular price Rs.600.00 PKR Sale price Rs.450.00 PKR
Sale Sold out
یہ بات سننے میں تو بڑی عجیب لگ سکتی ہے کہ کسی مصنف نے ایک ناول لکھنے میں 34 سال لگا دئے - مگر جب آپ مرزا حامد بیگ کے ناول "انار کلی " کو پڑھتے ہیں تو آپ کو یہ بات عجیب نہیں لگتی .... سولھوی صدی سے لیکر ٢٠١٧ تک پھیلے اس ناول میں مصنف نے وقت کا سفر جیسے طے کیا ہے وہ دیکھنے والی چیز ہے .... یہ ناول اس لئے بھی خاص ہو جاتا ہے کہ یہ اس بات کا آئینہ ہے کہ ایک تخلیق کار کسی ایک موضوع کو گرفت میں لینے کے لئے کس حد تک محنت کر سکتا ہے ...مگر یہ کام ہر کسی کے بس کا نہیں ، ایسا کرنے کے لئے اس مصنف کا مرزا حامد بیگ ہونا ضروری ہے .... یہ ایک تحقیقی اور دستاویزی ناول ہے ، جس بیحد خوبصورتی سے ایک کہانی میں پرو دیا گیا ہے ، تحقیقی اور دستاویزی تصنیف کے ساتھ ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ، یہ یا تو ایک کہانی کے طور پر بیان ہی نہیں ہو پاتی اور بکھر جاتی ہے یا پھر مصنف کا سارا زور دستاویزی حقیقت اور اپنی تحقیق کو سامنے لانا ہو جاتا ہے اور تخلیق کہیں پیچھے چھوٹ جاتی ہے یا پھر وہ اتنا بوجھل ہو جاتی ہے کہ قاری کو اس سے پار پانا مشکل ہو جاتا ہے ، مگر مرزا صاحب نے چھوٹے ، بڑے مکالموں اور narration سے اور بیحد خوش کن نثر میں اس ناول کو بنا ہے کہ قاری اس سے بندھا رہتا ہے .... یہ ناول وقت میں آگے پیچھے اس آسانی سے گردش کرتا ہے کہ کسی بھی ایک جگہ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کیا ہوا اور کیوں ، ... مجھے اس ناول میں کوئی بھی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس کا ناول سے کیا تعلّق ہے اور اسے کیوں شامل کیا گیا ہے .... یہ نثر اتنی خوبصورت ہے اور اس باریک بنی سے کام لیا گیا ہے کہ ایک ایک منظر تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے چلتا ہے ،...اگر آپ نئی ٹیکنالوجی وی آر سے وققف ہیں تو آپ میری بات کو سمجھ سکیںگے کہ مرزا صاحب کی نثر ایک وی آر ڈیوائس کی طرح کام کرتی ہے جو آپ کو کہانی کے اندر لے آتی ہے ...اب آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ صرف قرأت نہیں ہے .... وہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تیر رہا ہے ...اور آپ ان مکالموں کا حصّہ ہیں جو فضا میں گونج رہے ہیں .... جب کہانی میں 27 سال کا وقفہ آیا تو میں یہ سوچتا رہا کہ ناول کا اختتام کیسے ہوگا .... کیا یہ خوبصورت ناول بھی ایک پرانے گھسے پٹے موڑ پر جا کر ٹھہر جائے گا .... مگر جس ہنر مندی سے اس ناول کا اختتام کیا گیا ہے وہ قابل داد ہے .... " وہ اب گھر چلی جائے یا وہیں کھڑی رہے - یہ فیصلہ کرنے میں شازی نے کچھ وقت لیا ......... وہ چھوٹے چھوٹے امنگ بھرے قدم اٹھاتی مال روڈ کی جانب چل دی - یہ سوچ کر کہ اس کے تیز چلنے سے شہر یار کہیں پیچھے ہی نہ رہ جائے - " جیسے ہی آپ یہ پڑھتے ہیں تو آپ کو 27 سال پہلے والا منظر یاد آ جاتا ہے ، جب شازی کہتی ہے " اتنی دیر ! you took a long time to come this way "
ایک بیحد خوبصورت ناول کے لئے مرزا حامد بیگ صاحب کو بہت بہت مبارک .... یہ ناول آنے والے وقتوں تک یاد رکھا جائے گا ، مجھے اس بات کا پورا یقین ہے ..
View full details