حالی کی عربی نظم و نثر ایک مطالعہ از خورشید رضوی | Hali ki arabi nasar by Khursheed Rizvi
Pickup currently not available
Reliable shipping
Flexible returns
Details
پیش گفتار
خورشید رضوی
مولانا حالی کی شخصیت ہمارے ادب کی تاریخ میں انتہا درجے کی شرافت، اعلیٰ پائے کی ذہانت و قابلیت اور عملِ پیہم کا ایک ایسا آمیزہ ہے جو نایابی کی حد تک کمیاب ہے۔شاعری میں اُن کی قدیم غزلیں فن کاری کا اعلیٰ نمونہ ہیں جبکہ مسدّس سادگی و پُرکاری، دردمندی اور تاثیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ مقدمہ شعروشاعری تنقید میں اور حیاتِ سعدی و حیاتِ جاوید سوانح نگاری میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی علمی درس گاہ سے باقاعدہ فارغ التحصیل نہ ہونے کے باوجود اُن کا علمی مقام اپنے زمانے کے مسلّم و مستند علماءسے کسی طرح کم نہیں۔ ان تمام اعلیٰ صفات و امتیازات کے باوصف وہ نہایت درجہ سادہ، منکسر المزاج، بے نفس اور بے لوث انسان تھے۔ اُنھیں”پیکرِ اخلاص“ کہنا مبالغے سے یکسر پاک ہوگا۔
مولانا کا ادبی ذوق نہایت بلند تھا۔ تاہم اُن کی نظر میں پاسِ اخلاق، روشِ اعتدال اور حق گوئی کا رتبہ محض ادبیت سے کہیں بالا تھا۔ اُن کے لکھے ہوے ایک عربی تبصرے میں، خود اُن کی زبانی، اُن کے ادبی مسلک کی ایک مختصر مگر جامع وضاحت ملتی ہے جس کا مفہوم یوں ہے:
”مجھے کوئی خوبصورت نظم یا پُرلطف نثر یا دل کش بیان یا بلند کلام جب پسند آجاتا ہے تو میں اُس کی تعریف سے باز نہیں رہ سکتا۔البتہ مدح میں تکلّف یا تنقیص میں شدّت یا تحقیر میں مبالغہ یا ضرورت سے زیادہ تعریف کا میلان، یہ سب کچھ مجھ سے ہر گز نہیں ہوپاتا۔ نہ قصداً نہ سہواً۔ میری یہی آرزو رہتی ہے کہ جو کچھ بیان کروں اُس میں میری نسبت سچائی اور اصابت کی گواہی دی جائے اور مجھے صرف حق گو کی حیثیت سے پہچانا جائے۔“
اُردو کے علاوہ مولانا کو عربی اور فارسی میں بھی غیر معمولی دستگاہ حاصل تھی۔ اُن کی دوربین نگاہوں نے یہ بھانپ لیا تھا کہ فارسی اور عربی کا چلن مسلسل روبہ زوال ہے اور اگر اُنھوں نے ان دونوں زبانوں میں اپنی نظم و نثر کو خود محفوظ نہ کردیا تو بعد میں اس کام کی کسی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ انھوں نے پایانِ عمر میں، اس پر خصوصی توجہ دی اور اپنا اردو کلیاتِ نظم مرتب کرنے سے بھی پہلے اُس کا ایک ضمیمہ، جو فارسی و عربی شاعری اور انشا پر مشتمل تھا مرتب کرکے شائع کرادیا۔ مولانا کو اس سلسلے میں زمانے کی بے التفاتی کا جو اندیشہ تھا، نہایت حقیقت پسندانہ تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ سو سوا سو سال میں اِس ضمیمے پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا یہ مستحق تھا۔
زیرِنظر تصنیف مولانا کی عربی نظم و نثر کے تعارف و تفہیم کی ایک کوشش ہے۔ چند تمہیدی مباحث کے بعد ہم نے ضمیمہ¿ کلیات میں شامل عربی کلام، مکاتیب اور نثرپاروں کا متن ترجمے اور توضیحی حواشی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ نیز موضوع کی مناسبت سے، ضمناً اُن اہم تراجم کا بھی تعارف کرایا ہے جو مولانا نے عربی سے اردو میں کیے۔
عربی شعر و ادب سے مولانا کی دل چسپی اُن کے دیباچہ¿ دیوان ہی میں سامنے آنے لگتی ہے جس میں جابجا قرآنی اقتباسات کے علاوہ انھوں نے دیوان الحماسہ کے متعدد اشعار اور ہارون الرشید کے دربار میں ایک بدّو کی حکایت— (جو زیر نظر کتاب کے حصہ”عربی نثر“ میں بھی آئے گی) — نقل کی ہے نیز خلیفہ سے ایک مصرع سن کر ابونواس کی مہارتِ تضمین کا ذکر کیا ہے جس میں وہ صحبتِ شبانہ کا یوں نقشہ کھینچ دیتا تھا جیسے خود وہاں موجود رہا ہو۔ اپنے اردو اور فارسی اشعار میں برجستہ عربی شعر، مصرعے یا ٹکڑے لانے کی مثالیں اُن کے ہاں کم و بیش چالیس پینتالیس مقامات پر ملتی ہیں جن میں سے چند آئندہ صفحات میں درج کی گئی ہیں۔ تاہم ان کا استیعاب یہاں مقصود نہیں۔ ہمارا موضوع مذکورہ بالا ضمیمہ کلیات میں شامل عربی نظم و نثر تک محدود ہے۔
مولانا کی عربی تحریروں میں لندن سے نکلنے والے ایک عربی رسالے ”النحلہ“ کا ذکر بھی آتا ہے۔ اس کا سراغ لگاتے لگاتے ہم برٹش لائبریری لندن تک جا پہنچے اور بچشم خود اس کے محفوظ شماروں کی فائل دیکھ کر اپنے موضوع سے تعلق رکھنے والے بعض مشاہدات کو ایک ضمیمے کی صورت میں شاملِ کتاب کرلیا، اس سلسلے میں ہمارے دوست ارشد لطیف صاحب نے، جو لندن میں مقیم ہیں، ہماری بہت مدد کی۔ برٹش لائبریری کی مطالعہ گاہ تک رسائی، نیز رسالے کی نایاب فائل سے اخذکردہ تصاویر وغیرہ کی اشاعت کے رسمی اجازت نامے کا حصول بھی اُنھی کی وساطت سے ممکن ہوا۔
پنجاب یونیورسٹی لائبری لاہور کے نہایت سینئر رُکن، نیز مخطوطات اور نادر محفوظات کے انچارج ڈاکٹر حامد علی صاحب نے بعض نادرونایاب مآخذ کا حصول ممکن بنایا۔ مولانا کی کتاب، ”مبادی علم جیولوجی“ جس فرانسیسی تصنیف کے عربی ترجمے سے اردو میں منتقل کی گئی ہے اُس کی فرانسیسی اصل کے بعض کلیدی کوائف سمجھنے کے لیے ڈاکٹر صالحہ نذیر صاحبہ سے استفادہ کیا گیا۔ برادرِ عزیز احمد تُراث نے بعض عربی حوالوں کی جستجو میں مدد دی۔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر اور برادرم محمود الحسن نے بعض کتب فراہم کرکے میرے لیے آسانی پیدا کی۔ کتاب کی اشاعت القا پبلی کیشنز کے مہتمم ڈاکٹر انوار ناصر اور اُن کے رفقا خصوصاً توقیر عباس، عمانوایل اقبال اور شیخ محمد وسیم کی توجہ کی مرہونِ منت ہے۔ میں ان سب احباب کا تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔
کتاب کے عربی متن میں جہان بیّن طور پر کوئی لفظ نامکمل یا غلط درج ہوگیا ہے وہاں اُس کی تصحیح نشان دہی کے بغیر ہی کردی گئی ہے۔ البتہ جہاں کسی سبب سے مناسب معلوم ہواوہاں حاشیے میں اشارہ کردیا گیا ہے۔
اشاعت کے مراحل میں، بعض عملی دشواریوں کے باعث، کچھ امور کو مثالی معیار سے کمتر درجے پر گوارا کیا گیا ہے۔ مثلاً قرآنِ مجید کے اور بعض دیگر حوالے جو اصولاً عربی متن کے نیچے درج ہونے چاہیے تھے، یہاں اردو ترجمے کے نیچے ملیں گے امید ہے قارئین عربی متن میں ان کا محل تلاش کرلینے میں زیادہ دشواری محسوس نہیں کریں گے۔
قرآنی اقتباسات کے سلسلے میں چند ایک مقامات پر تو بتقاضائے محل، سورت کے نام اور آیت نمبر کی تفصیل ہی لکھ دی گئی ہے تاہم، بیشتر، جہاں عربی متن میں قرآنی الفاظ کسی ردووبدل کے بغیر آئے ہیں وہاں ”القرآن“ لکھ کر حاشیے میں سورت نمبر اور آیت نمبر کا حوالہ دیا گیا ہے اور جہاں اقتباس کرتے ہوے کچھ تبدیلی ہوگئی ہے وہاں ”دیکھیے: القرآن“ لکھا گیا ہے۔
کم و بیش تیس برس پہلے مُحبّی ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے میری توجہ اِس کام کی طرف مبذول کرائی تھی۔ بعض اور علمی منصوبوں کی مصروفیت کے سبب، اگرچہ میری جانب سے تعمیل میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تاہم، الحمد للہ، اُن کی تحریک بے نتیجہ نہیں رہی۔ کتاب کا انتساب اُنھی کے نام ہے۔
Shipping + Returns
We strive to process and ship all orders in a timely manner, working diligently to ensure that your items are on their way to you as soon as possible.