شاکاہاری از ہان کانگ | Shakahari by Han Kang | The Vegetarian by Han kang
شاکاہاری از ہان کانگ | Shakahari by Han Kang | The Vegetarian by Han kang
ہان کانگ کے ناول "دی ویجیٹیرین" کے ترجمے سے ایک اقتباس
انتخاب و اردو ترجمہ : اسماء حسین
جب تک میری بیوی شاکا ہاری نہیں ہوئی تھی ،میں ہمیشہ یہی سوچا کرتا تھا کہ وہ ایک معمولی عورت ہے ، ہر لحاظ سے انتہائی معمولی عورت ۔ سچ کہوں تو جب میری اُس سے پہلی ملاقات ہوئی ،تو مجھے اُس میں رتی بھر کشش محسوس نہیں ہوئی ۔درمیانہ قد ؛چھوٹے بال نہ زیادہ لمبے نہ زیادہ چھوٹے؛ یرقان زدہ سی بیمار جلد ؛ قدرے اُبھری ہوئی رُخسار وں کی ہڈیاں ؛ اُس کے ڈرےسہمے،زرد چہرے نے مجھے اس کی شخصیت کے بارے میں وہ سب کچھ بتا دیا جو مجھے جاننے کی ضرورت تھی ۔ جیسے ہی وہ میز کے پاس آئی ،جہاں میں اُس کا انتظا ر کررہا تھا ،میں اُس کے جوتوں پر توجہ دیئے بغیر نہیں رہ سکا – سادہ ترین سیاہ جوتے۔ اور اُس کی وہ چال -نہ تیز نہ آہستہ ، قدم نہ زیادہ بڑے نہ چھوٹے۔
لیکن اگر اُس میں کوئی کشش یا خوبی نہیں تھی تو کوئی ایسی خاص خامی بھی نہیں تھی،لہذا شادی نہ کرنے کے لیے ہم دونوں کے پاس ہی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ایسی جامد شخصیت کی عورت جس کی ذات میں مجھے کوئی تازگی ،دلکشی یا خوبی نظر نہیں آتی تھی میرے لیے نہایت موزوں تھی ۔ اس کا دل جیتنے کے لیے مجھے بہت پڑھا لکھا نظر آنے کی ضرورت نہیں تھی ،اس بات کی بھی پریشانی نہیں تھی کہ وہ میرا موازنہ ماڈلنگ کرنے والے خوش شکل اور خو ش لباس مردوں سے کرے گی،میں اگر کسی ملاقات پر دیر سے پہنچتا ، تب بھی وہ شکوہ شیکایت نہیں کرتی تھی ۔ میری توند پچیس چھبیس برس کی عمر میں ہی باہر نکلنے لگی تھی ،میری پتلی ٹانگوں اور بازوں نےمیری تمام تر کوششوں کے باوجود فربہ ہونےسے قطعاً انکارکردیا تھا ،اپنے عضوتناسل کے سائز کی وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار تھا – لیکن مجھے یقین تھا کہ ان مسائل کی وجہ سے ا س کی طرف سے پریشان نہیں ہونا پڑےگا۔
میں ہمیشہ سے ہر معاملے میں اعتدال برتنے کا قائل تھا۔ ۔ اسکول میں بھی اپنے ہم عمروں کے ساتھ رہ کر کوئی خطرہ مول لینے کے بجائے میں نےاپنے سے دو تین سال چھوٹوں کو پسند کیا تاکہ ان پر دھونس جما سکوں ۔ اسکول کے بعد میں نے ایڈمیشن بھی ان کالجوں میں بھیجے جہاں مجھے آسانی سے مکمل اسکالر شپ مل سکے ۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ایک چھوٹی سی کمپنی میں نوکری کر لی جہاں محنت سے اپنا کام کرنے کے عوض مجھے معقول ماہانہ تنخواہ ملتی تھی اورمجھے امید تھی کہ چھوٹی کمپنی ہونے کی وجہ سے یہاں میری عام سی صلاحیتوں کی قدرکی جائے گی۔
لہذا یہ بالکل فطری امرتھا کہ میں نے دنیا کی سب سے معمولی عورت سے شادی کی تھی ۔ جہاں تک خوبصورت ، ذہین ، پرکشش خواتین اور امیر خاندانوں کی بیٹیوں سے شادی کا سوال ہے وہ میرے لیے صرف زحمت بن سکتیں تھیں ۔ ان کی موجودگی میری احتیاط سے تخلیق کی گئی عام سی معتدل دنیا کو درہم برہم کرسکتی تھی۔
میری توقعات کے عین مطابق میری بیوی نے خو د کو یکسر عام سی بیوی ثابت کیا جوبغیر کسی بدمزاجی یا ناگواری کے بس کام کاج میں مصرف رہتی تھی ۔ وہ ہرصبح چھ بجے چاول، شوربہ اور مچھلی پکانے کے لیے بیدار ہوجاتی تھی۔ اس نے لڑکپن سے ہی معمولی پارٹ ٹائم نوکریاں کر کے اپنے خاندان کو مالی سہارا دیاتھا ۔ پھر اسےایک کمپیوٹر اینڈ گرافکس کالج میں اسسٹنٹ انسٹرکٹر کی نوکری مل گئی ، یہ وہی کالج تھا جس میں وہ خود بھی سال بھر زیر تعلیم رہی تھی ،اس کے علاوہ ایک کامک پبلشرنے اس سے اپنی کتابوں میں اسپیچ ببلزکےالفاظ پر کام کرنے کا کنڑیکٹ بھی کر لیا تھا جن پر وہ گھر سے ہی کام کرتی تھی۔
وہ ایک کم آمیز عورت تھی ۔ وہ شاذو نادر ہی مجھ سے کسی چیز کی فرمائش کرتی تھی اور جب کبھی مجھے گھر پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی تو اس بات کو لے کر ہنگامہ نہیں کرتی تھی ۔ یہاں تک کہ جب ہم دونوں کی چھٹیاں اتفاق سے ایک ساتھ آجاتیں تب بھی نہیں کہتی تھی کہ ہمیں مل کرکہیں سیروتفریح کے لیے جانا چاہیے ۔اکثر دوپہرمیں ،جب میں ٹی وی کا ریموٹ کنڑول ہاتھ میں تھامے وقت گزاری کر تا تووہ خود کو کمرے میں بند کر لیتی تھی۔ وہ اپنا وقت مطالعے میں صرف کرتی جو اس کا خاص اورواحد مشغلہ تھا ۔کسی نا قابل فہم وجہ سے مطالعے میں وہ انتہائی غرق ہوجاتی تھی جبکہ مجھےکتابیں پڑھنا اتنا ہی بے کیف محسوس ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ میں کتاب کے اندر جھانکنے کے لیے بھی خود کو قائل نہیں کرپاتا تھا۔ صرف کھانے کے اوقات کے دوران وہ دروازہ کھول کر کھانا تیار کرنے کے لیے خاموشی باہر آتی تھی ۔ ظاہر ہے کہ ایسی بیوی اور اس طرز زندگی کے ساتھ مجھے زندگی میں کوئی بھی امنگ ترنگ یا رنگینی نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ ہاں اگر ، میری بیوی ان بیویوں میں سے ہوتی جن کے فون سہلیوں اور ساتھ کام کرنے والوں کی کالز سے سارا دن وقفے وقفے سے بجتے رہتے ہیں ، یا جن عورتوں کی ہر وقت کی نکتہ چینی شوہروں کے ساتھ چیخ وپکار اور جھگڑوں کا باعث بنتی ہے ، تو پھر میں ضرور شکر مناتا کہ چلو اچھا ہے آرام کر رہی ہے۔
صرف ایک وجہ سے میری بیوی غیر معمولی عورت تھی اور وجہ یہ تھی کہ وہ بریزر پہننا پسند نہیں کرتی تھی ۔جب میں نوخیز جوان تھا ، اور ہم دونوں ڈیٹنگ کر رہے تھے ۔ایک دن میں نے اپنا ہاتھ اس کی کمرپررکھا تو مجھے سوئیٹر کے نیچے اس کی بریزر کی پٹی محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن جب مجھے وجہ سمجھ آئی تو مجھ پر شہوت طاری ہو گئی ۔ کیا وہ مجھے کسی قسم کا اشارہ کر رہی تھی ،یہ جاننے کے لیے میں نے ایک یا دومنٹ تک اس کے تاثرات پڑھنے کے لیے اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھیں ۔لیکن میری چہرہ شناسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مجھے قطعاً کسی قسم کا بھی اشارہ دینے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی تھی ۔ اگر وہ کوئی اشارہ نہیں تھا تو کیا کاہلی تھی یا محض بے فکری ؟ میں سمجھ نہیں سکا ۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کی چھاتیاں اتنی خوش وضع تھیں کہ بغیر بریزر کے اچھی لگتیں ۔ میری تو یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ گدی دار بریزرپہن کرنکلا کرے تاکہ مجھے اپنے جاننے والوں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔
یہاں تک کہ جب میں نے اسے گرمیوں میں بریزرپہننے کے لیے قائل کر لیا , تب بھی اس نے گھر سے نکلتے ہی اس کا ہک کھول دیا ۔ کھلا ہوا ہک ہلکے رنگ کی پتلی شرٹ کے نیچے سے نمایاں نظر آ رہا تھا لیکن اسے قطعاً کوئی پروا نہیں تھی۔میں نے اتنی حبس والی گرمی میں بریزز ر پہننے کے بجائے جیکٹ پہننے پر سرزنش کی ۔ لیکن اس نے عذر پیش کر دیا کہ وہ بریزر نہیں پہن سکتی کیونکہ وہ اس کی چھاتیوں کو بھینچ دیتی ہے۔ میں نے خود تو کبھی بریزر نہیں پہنی تھی اس لیے میری سمجھ سے باہر تھا کہ چھاتیوں کا بھچنا کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اُس کے جواز پیش کر دینے کے باوجود میں نے اس کی حد سے زیادہ حسّسّایت پر شک کرنا شروع کردیا کیونکہ میں جانتا تھاکہ میری بیوی کے برعکس تقریباً تمام خواتین بریزر پہنتی ہیں اور انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
باقی ہر لحاظ سے ہماری زندگی آرام سے کٹ رہی تھی۔ہماری شادی کو پانچ سال پورے ہونے والے تھے اور کیونکہ شروع سے ہی ہمیں ایک دوسرے سے کوئی دیوانگی کی حد تک محبت نہیں تھی اس لیے ہم بیزاری اور افسردگی کے مقام تک پہنچنے سے بچ گئے تھے جہاں شادی شدہ زندگی ایک آزمائش بن کر رہ جاتی ہے۔ بس پچھلی خزاں سے میرے دل میں کبھی کبھی یہ خیال آتا تھا کہ کب ایک بچہ اپنی سکون بخش پیاری سی توتلی آواز میں بابا کہے کر پکارے گا ۔ ابھی تک بچے نہ کرنا ہم دونوں کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ ہم نے سوچا تھا کہ بچے کا بعد میں سوچیں گے پہلے اپنا ذاتی مکان بنا ئیں گے جو ہم نے پچھلی خزاں میں خرید لیا تھا۔ مگرپچھلی فروری کی ایک صبح ، جب میں نے اپنی بیوی کو شب خوابی کےلباس میں باورچی خانے میں کھڑےدیکھا ، تو اس سے پہلے تک میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ہماری زندگی اتنی خوفناک حد تک تبدیل ہو نے والی ہے ۔
---
"تم یہاں کھڑی کیا کر رہی ہوں۔"
میں باتھ روم کی بتی جلانے ہی لگا تھا کہ اچانک اسے دیکھ کر چونک گیا ۔ اس وقت صبح کے چار بجے تھے اور میں شدید پیاس کی وجہ سے جاگا تھا جو رات کھانے کے ساتھ ڈیڑھ بوتل سوجو(soju) پینے کی وجہ سے لگ رہی تھی اور اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے حواس بحال ہونے میں معمول سے تھوڑازیادہ وقت لگنا تھا۔
"سنو ؟ میں نے پوچھاکیاکررہی ہو؟"
مجھے کافی ٹھنڈ لگ رہی تھی لیکن اپنی بیوی کو اس وقت دیکھنا زیادہ ٹھٹرا دینے والا منظر تھا۔ مجھ پر شراب کے نشے کے باعث چھائی ہوئی غنودگی فوراً ہی ہوا گئی ۔ وہ بے حس و حرکت فریج کے سامنے کھڑی تھی ۔ اس کا چہرہ تاریکی میں چھپا ہونے کی وجہ سے میں اس کے تاثرات کا اندازہ نہیں لگا سکا لیکن اس کی اس حرکت کی کیاکیا وجوہات ہو سکتی ہیں یہ سوچ کر مجھے خوف آنے لگا تھا۔ اس کے گھنے سیاہ بال آپس میں الجھ کر گچھا بنے ہوئے تھے اور وہ معمول کے مطابق اپنے شب خوابی کے سفید لباس میں ملبوس تھی۔
ایسی راتوں میں وہ جلدی سے اپنا سوئیٹر پہنتی تھی اور پھر اپنی نہانے والی چپل تلاش کرتی تھی۔ وہ کتنی دیر سے یہاں ایسے ہی کھڑی تھی – ننگے پیر، گرمی کے باریک شب خوابی کے کپڑوں میں، میرے مسلسل سوالات سے بالکل غافل کسی ستون کی طرح سیدھی ؟ اس کے چہرے کا رخ میری طرف نہیں تھا اور وہ غیرفطری طور پر اتنی ساکت کھڑی تھی جیسے کوئی بھوت خاموش کھڑا ہو۔
کیا ہورہا تھا؟ اگر اس نے میری آواز نہیں سنی ، تو شاید اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نیند میں چل رہی تھی ۔
میں اس کے قریب گیا اور اپنی گردن اونچی کر کے اس کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی۔
"تم طرح یہاں کیوں کھڑی ہو؟ کیا ہو رہا ہے؟"
جب میں نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تومیں حیرت زدہ رہ گیا کہ اس نے قطعاً کوئی ردعمل نہیں ظاہر کیا تھا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ میرا دماغ بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا اور یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا تھا؛ لیونگ روم سے باہر نکلنے کے بعد جو کچھ بھی میں نے کیا ،جیسے کہ اس سے پوچھنا کیا کر رہی ہو ،اور اس کی طرف بڑھنا یہ سب کچھ میں نے بقائمی ہوش و حواس کیا تھا۔ اصل میں تو وہ بے حس وحرکت ایسے کھڑی تھی جیسے اپنی کسی دنیا میں گم ہو۔ ایسا شاذو نادران موقعوں پر ہوتا تھا جب وہ رات دیر تک ٹی وی ڈرامے میں اتنی منہمک ہوتی تھی کہ میرے گھرکے اندر داخل ہونے کا بھی اسے احساس نہیں ہو پاتا تھا۔ لیکن اندھیرے باورچی خانے کے اندر صبح کے چار بجے فریج سے آتی مدہم روشنی میں ایسا کیا ہو سکتا تھا جس پر اس کی تمامتر توجہ مرکوز تھی ۔
"سنو!"
اس نے آہستہ سے اپنا چہرہ تاریکی سے پھیر کر میری طرف کیا ۔ اس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے وا ہوئے تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، ان میں اضطراب نہیں تھا لیکن وہ روشن تھیں ۔
"میں نے ایک خواب دیکھا ۔"
"اس کی آواز حیرت انگیز طور پر واضح تھی۔
"خواب ؟ کیا بول رہی ہو؟ جانتی بھی ہو کیا وقت ہوا ہے ؟"
اس کا جسم مکمل طور پر میری طرف مڑا ،اور وہ دھیمے سے چلتی ہوئی باورچی خانے کے کھلے دروازے سے نکل کر ملحقہ لیونگ روم میں چلی گئی ۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اپنے پیر سے دھکیل کر دروازہ بند کر دیا۔ میں اندھیرے باورچی خانے میں تنہا ،اس کے وجود کو دروازے کے پیچھے غائب ہوتا دیکھتا رہ گیا ۔
میں باتھ روم کی بتی جلا کر اندر چلا گیا۔ پچھلے کئی دنوں سے شدید ٹھنڈ تھی ، درجہ حرارت مسلسل چودہ ڈگری فان ہائیٹ کے آس پاس ہی ٹکا ہوا تھا۔ میں کچھ گھنٹے پہلے ہی نہایاتھا اس لیے میری پلاسٹک کی نہانے والی چپل ابھی تک گیلی اورٹھنڈی تھیں۔اس ظالم موسم کی تنہائی نے خود کو محسوس کرانا شروع کردیا تھا ، باتھ روم کے اور وینٹی لیٹر کے سیاہ پنکھے کی درزوں سے رستی ہوئی سفید ٹائلوں سے بہے کر فرش اور دیواروں پر پھیل رہی تھی ۔
جب میں واپس لیونگ روم واپس پہنچا تو میری بیوی ٹانگیں سینے کی طرف موڑےلیٹی تھی اور خاموشی ایسی تھی جیسے کمرے کے اندر میں اکیلا ہی موجود ہوں۔ لیکن ظاہر ہے یہ صرف میرا وہم تھا۔ اگر میں بالکل ساکت کھڑا ، اپنی سانسں روک کر سننے کی کوشش کرتا ،تو جہاں وہ لیٹی تھی وہاں سے آتی اس کی ہلکی ہلکی سانسوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ مگر یہ آوازیں ایسی گہری اور مسلسل نہیں تھیں جیسے کوئی سویا ہواانسان لیتا ہے۔ میں ہاتھ بڑھا کر اسے چھو سکتا تھا، اور میرا ہاتھ اس کی جلد کی گرماہٹ محسوس کر لیتا ۔ لیکن کسی وجہ سے میں اسے چھو نہیں پایا۔ یہاں تک کہ میں اس سے مخاطب بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
---
اگلے دن صبح بیدار ہونے کے چند لمحوں بعد ، جب میرا ذہن ابھی مکمل طور پر حواسوں میں نہیں آیا تھا، میں اپنے گرد کمبل لپیٹے ،غائب دماغی سے سفید پردوں میں سے چھن چھن کر کمرے کے اندر آنے والی سردی کی دھوپ دیکھ رہا تھا۔ اسی بے خیالی میں جوں ہی میری نظر وال کلاک پر پڑی میں نے وقت دیکھتے ہی ہڑ بڑا کر بسترسے چھلانگ لگائی ، جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا تو میری بیوی پھر فرج کے سامنے کھڑی تھی۔
کیا پاگل ہوگئی ہو؟ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ کیا وقت ہوا ۔۔۔"؟ لیکن اسی لمحے کوئی چیز میرے پیر کے نیچے آ گئی اور میرا جملہ ادھورا رہ گیا۔ منظردیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
وہ اب تک رات کے کپڑوں پہنے ہوئے اکڑوں بیٹھی تھی ، اس کے الجھے بال، گچھے بنے ا س کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھے ۔اس کے گرد باورچی خانے کے فرش پر ہر طرف پلاسٹک کے تھیلے ، ا ئیر ٹا ئیٹ ڈ بے بکھرے ہو ئے تھے اور اتنے زیادہ پھیلے ہو ئے تھے کہ ان کو کچلے بغیر میں کہیں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس نے شابو شا بو پکانے کے لیے گائے کا گوشت، سور کے پیٹ کا گوشت، کالی گائے کی دستی کے دو ٹکڑے، ویکیوم پیکڈ تھیلے میں کچھ سکویڈ (squid)شفاف تھیلوں میں ،بام مچھلی کے سلائس جو کافی عرصے پہلے میری ساس نے گاوں سے بھیجے تھے ، سوکھی ہوئی چھوٹی مچھلیاں جو پیلے دھاگے میں میں پروئی ہوئی تھیں ، فروز ن ڈ مپلنگز کے پیکٹ جو ابھی کھلے تک نہیں تھے اور ایسی ہی نامعلوم کتنی چیزوں کے تھیلے فرج کی گہرائیوں سے نکال کر باہر پھینکے ہوئے تھے ۔باورچی خانے میں صرف سرسراہٹ کی آوازیں تھیں ؛ میری بیوی اپنے چاروں طرف پھیلی چیزیں ایک ایک کر کے سیاہ کچرے کے تھیلے میں ڈال رہی تھی ۔ آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور میں پھٹ پڑا۔
"اب تم کیا کر رہی ہو؟" میں چیخا۔
وہ بظا ہر پچھلی رات کی طرح میری موجودگی سے بے خبر ،گوشت کے پیکٹس کچرے کے تھیلے میں بھرتی رہی ، جن میں گائے اور سور کا گوشت ، مرغی اور کم از کم دولاکھ وون مالیت کی نمکین پانی کی بام مچھلی شامل تھی۔
"کیا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے ؟ ایسی کیا مصیبت آ گئی ہے کہ سارا گوشت پھینک رہی ہو؟"
میں پیکٹس کے درمیان ٹھوکریں کھاتا اس تک پہنچا اور اس کی کلائی پکڑ کر اس کے ہاتھ سے پیکٹس چھینے کی کوشش کی ۔لیکن جس طاقت سے اس نے مجھ سے خود کو واپس چھڑایا میں حیران رہ گیا ۔ ایک لمحے کے لیے تو میں کمزور پڑ ا لیکن میرے غصے کی شدت نے جلد ہی مجھ میں اس کو قابو کرنے کی طاقت بھر دی۔ اپنی سرخ کلائی سہلاتے ہوئے ، وہ اسی عام سےانداز اورپرسکون لہجے میں گویا ہوئی جس میں اس نے پہلے جواب دیا تھا ۔
"میں نے ایک خواب دیکھا تھا ۔"
Excerpt from:
The Vegetarian
Novel by Han Kang
Share
Top Pick of The Month