Skip to product information
1 of 2

شعر شعور انگیز از شمس الرحمان فاروقی | Shair shaoor angaiz by Shamsh Ur rehman Farooqi

شعر شعور انگیز از شمس الرحمان فاروقی | Shair shaoor angaiz by Shamsh Ur rehman Farooqi

Regular price Rs.5,300.00 PKR
Regular price Rs.8,000.00 PKR Sale price Rs.5,300.00 PKR
Sale Sold out

محمد حسن عسکری اپنے ایک مضمون ”مزے دار شاعر“ میں لکھتے ہیں کہ میر تقی میر کے یہاں جو مشکلیں پیدا ہوتی ہیں اُن کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ ان کی شخصیت اوروں سے زیادہ پیچیدہ اور پہلو دار تھی، بلکہ وہ اپنی شخصیت پر مسلسل خلاقانہ عمل کے ذریعے متضاد عناصر گھلا ملا کر ایک نئی چیز پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے میر صاحب کے باطن میں جاری جدلیاتی عمل کی وضاحت کے لیے جس شعر کا حوالہ دیا پہلے وہ دیکھ لیجیے کہ اسی سے انھوں نے ایک دلچسپ نکتہ پیدا کیا ہے۔ میر صاحب کا شعر ہے :

نہیں میر مستانہ صحبت کا باب
مصاحب کرو کوئی ہشیار سا

حسن عسکری کا تجزیہ یہ ہے کہ ”مستانہ پن اور ہشیاری کے ان متضاد تقاضوں کو سہارنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے اپنی سہولت کے لیے عام پڑھنے والوں نے یہ مشہور کر دیا کہ میر کی شاعری واہ نہیں آہ ہے۔ لیکن جن شاعروں نے واقعی میر سے الجھنے کی کوشش کی وہ عمر بھر بریز بریز پکارا کیے۔“

اور یوں وہ فیصلہ سنا دیتے ہیں : ”غرض میر کو پڑھنا عمر بھر کا جھگڑا مول لینا ہے۔“

”شعر شور انگیز“ کو پڑھنے کا موقع ملا تو لگا جیسے یہ عمر بھر کا جھگڑا فاروقی صاحب نے بھی مول لے رکھا تھا۔ وہ عمر بھر میر صاحب کو پڑھتے رہے اور وہ جو کام میر صاحب کے باب میں ہوا تھا اُسے بھی پرکھتے رہے اور اِس نتیجے پر پہنچے کہ ابھی میر تقی میر جیسے بڑے شاعر کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ انھوں نے ”شعر شور انگیز“ میں لکھا ہے : ”آل احمد سرور، مجنوں گورکھپوری، گوپی چند نارنگ اور محمد حسن عسکری کی اِکا دُکا تحریروں اور اثر لکھنوی کی پرزور مدافعت و وکالت کے سوا میر شناسی کا دامن خالی ہے۔“

وہ اِنتخاب کلام میر کے نام سے یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے مطمئن نہ تھے کہ ان کے خیال میں وہ اس قدر ناقص تھیں کہ میر کی تحسین اور تعیین قدر میں معاون ہونے کے بجائے حارج تھیں۔ میر کے انتخاب کلام کے باب میں وہ کام جسے وہ اہم سمجھتے تھے اس کے بارے میں بھی ان کے تحفظات تھے۔ ان کی نظر میں :

 

 

1۔ اثر لکھنوی کا مرتبہ انتخاب ”مزامیر“ نسبتاً بہتر تھا لیکن اس میں تنقیدی بصیرت کے بجائے عقیدت سے کام لیا گیا تھا۔

2۔ حسن عسکری نے ”ساقی“ کے خاص نمبر میں شائع ہونے والے اپنے انتخاب میں ایک مخصوص اور ذرا محدود نقطہ نظر سے کام لیتے ہوئے میر کے بہترین اشعار کی جگہ میر کی مکمل، یا اگر مکمل نہیں تو نمائندہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح میر کے بہت عمدہ اشعار کے ساتھ کم عمدہ اشعار بھی انتخاب میں آ گئے۔ لہٰذا اس انتخاب کی روشنی میں میر کے شاعرانہ مرتبے کے باب میں صحیح رائے نہیں قائم ہو سکتی۔

3۔ علی سردار جعفری نے میر کا سب سے اچھا انتخاب کیا۔ بعض حدود اور نقطہ نظر کی تنگیوں کے باوجود ان کا دیباچہ بھی خوب ہے۔ تاہم انھوں نے میر کے کئی رنگوں کو نظر انداز کر دیا اور بہت سے کمزور اشعار بھی شامل کر دیے ہیں، خاص کر ایسے اشعار جن کی ”سیاسی“ یا ”انقلابی“ تعبیر کسی نہ کسی طرح ممکن تھی۔

خیر، فاروقی صاحب اس عدم اطمینان کے ساتھ ساتھ اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انھوں نے ہر انتخاب سے کچھ نہ کچھ اخذ کیا۔ اثر لکھنوی، حسن عسکری، علی سردار جعفری کے کام کے علاوہ حسرت موہانی، مولوی عبدالحق، مولوی نور الرحمٰن، حامدی کاشمیری، قاضی افضال حسین، ڈاکٹر محمد حسن اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے انتخابات میر اُن کے مطالعہ میں رہے ہیں۔ انھوں نے متن کے انتخاب کے لیے جن نسخوں کو سامنے رکھا اُس کی تفصیل بھی ”شعر شعور انگیز“ کی تمہید میں کچھ یوں ملتی ہے :

1۔ نسخہ فورٹ ولیم: کلکتہ 1811 ء
2۔ نسخہ نولکشور : لکھنؤ 1867 ء
3۔ نسخہ آسی : نولکشور، لکھنؤ 1941 ء
4۔ کلیات غزلیات مرتبہ ظل عباس عباسی:علمی مجلس دہلی 1967 ء
5۔ کلیات جلد اوّل مرتبہ پروفیسر احتشام حسین: رام نرائن لعل الہ آباد 1970 ء
6۔ کلیات جلد جلد دوم مرتبہ ڈاکٹر مسیح الزماں : رام نرائن لعل الہ آباد 1970 ء
8۔ کلیات جلد اول تا سوم (چار دیوان) مرتبہ کلب علی خاں فائق:مجلس ترقی ادب لاہور 1965 ء
8۔ دیوان اول مخطوطہ محمود آباد، مرتبہ اکبر حیدری: سری نگر 1971 ء
9۔ مخطوطہ دیوان اول، مملوکہ نیر مسعود (تاریخ درج نہیں )

فاروقی صاحب نے وہ طریقہ کار جو انتخاب میر اور تفہیم میر کے باب میں اپنے لیے طے کیا اس کے خال و خد یہ ہیں :

1۔ مکمل غزل کے انتخاب کے بجائے ہر منتخب غزل سے کچھ اشعار تفہیم کے لیے نشان زد کیے جائیں۔
2۔ غزل کی صورت برقرار رکھنے کے لیے مطلع ملا کر کم سے کم تین شعروں کا التزام رکھا جائے۔

3۔ جہاں صرف دو شعر انتخاب کے نکلیں وہاں مطلع یا کوئی اور شعر بھرتی کے لیے شامل کر لیا جائے اور اس کی وضاحت کر دی جائے کہ کون سا شعر بھرتی کا ہے۔ جہاں ایک شعر ہی نکلے وہاں ایک پر اکتفا کیا جائے۔

4۔ مثنویوں، شکار ناموں وغیرہ سے جو غزل کے اشعار منتخب ہوں انھیں مناسب ردیف کے تحت انتخاب کا حصہ بنایا جائے۔

5۔ کسی ایک دیوان یا مختلف دواوین میں جہاں ہم طرح غزلیں ملیں یا کہیں دو غزلے ہوں تو ان کے اشعار چھانٹ کر ایک غزل بنا لی جائے۔

6۔ انتخاب کے لیے ہر غزل کو دس بارہ بار پڑھ کر تمام اشعار کی کیفیتوں اور معنویتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی جائے۔ لغات کا سہارا بے تکلف اور بکثرت لیا جائے اور انتخابی شعر کو الگ درج کر لیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ

یہ وہ بنیادیں تھیں جن پر فاروقی صاحب نے ”شعر شور انگیز“ کی عالیشان عمارت کھڑی کی۔ تاہم صحیح یا غلط میں نے محسوس کیا ہے کہ:

1۔ فاروقی صاحب کی تنقیدی بصیرت نے تفہیم میر کا باب تو روشن کر دیا ہے اور یہ ایسا کام ہے جس کی مثال اُردو ادب میں نہیں ملتی مگر ”غزلیات میر“ کا انتخاب، اس سارے منصوبے میں ترجیح اوّل نہیں رہا اور وہ پس منظر میں چلا گیا۔ اگرچہ ”شعر شور انگیز“ کے سرورق پر یہ عبارت ملتی ہے کہ ”غزلیات میر کا محققانہ انتخاب“ جب کہ یہ ہر منتخب غزل میں سے ایسے اشعار کا انتخاب ہے جن پر فاروقی صاحب اپنے مباحث قائم کرنے جا رہے تھے۔

2۔ اثر لکھنوی کی ”مزامیر“ پر فاروقی صاحب کا اعتراض تھا کہ وہ تنقیدی بصیرت کے بجائے عقیدت سے کام لے رہے تھے جب کہ خود فاروقی صاحب کے ناقدانہ فیصلے نے ہمیں مکمل غزل پڑھنے اور ان کے انتخاب میں آنے والے اشعار کو غزل کے مزاج کے اندر رکھ کر لطف اندوز ہونے کے مواقع پیدا نہ ہونے دیے۔

3۔ حسن عسکری پر ان کا اعتراض تھا انھوں نے میر کی مکمل تصویر پیش کرنے کی کوشش میں کم عمدہ اشعار کو منتخب کر لیا اور علی سردار جعفری پر وہ معترض تھے کہ انھوں نے ایسے کمزور شعر منتخب کر لیے جن کی سیاسی یا انقلابی تعبیر کسی نہ کسی طرح ممکن تھی جب کہ وہ خود کسی غزل کو مجموعی طور پر دیکھنے اور انتخاب میں شامل کرنے کے بجائے ایسے اصول کی پیروی کر رہے تھے جس میں بھرتی کا مطلع یا بھرتی کے کسی سادہ شعر کو بھی شامل کرنا ممکن ہو گیا تھا۔

یہیں وضاحت کرتا چلوں کہ اوپر بیان کردہ نقاط سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ میں ”شعر شور انگیز“ میں ہونے والے کام کی عظمت، انفرادیت اور افادیت کا قائل نہیں ہوں۔ وہ تو میں ہوں اور جی جان سے ہوں۔ اس میں جس طرح فاروقی صاحب کا علم بول رہا ہے، جس طرح وہ اُردو فارسی کے کلاسیکی شعرا کے کام کے ساتھ میر کے کلام کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے نکات سجھاتے ہیں، جس طرح وہ معنی آفرینی، شعر کے آہنگ، استفہامیہ یا انشائیہ اسلوب، میر کی لفظیات، غزل کی رسومیات، رعایت و مناسبت کے استعمال، مشرقی اور مغربی شعریات کے الگ پیمانوں اور میر کے مضامین کی ماہیت کو موضوع بحث بناتے ہیں اور میر کے ہاں روزمرہ کی زبان کے تخلیقی استعمال، محزونی لہجے، طنطنے یا غرور کو نشان زد کرتے ہیں وہ کسی اور کے بس کی بات تھی ہی نہیں۔ جو کام انھوں نے کیا بس وہی کر سکتے تھے۔ کہنا یہ ہے کہ انتخاب کا معاملہ ہے ہی ایسا۔ کہہ لیجیے یہاں ہر مرتب کے ذوق اور ترجیحات کے اپنے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور ان فیصلوں تک پہنچنے کے لیے انھیں کچھ سمجھوتوں کی راہ نکالنا ہی پڑتی ہے۔ کچھ سمجھوتے اثر لکھنوی، علی سردار جعفری، محمد حسن عسکری نے کیے اور کچھ سمجھوتے فاروقی صاحب کو بھی کرنا پڑ رہے تھے

 

محمد شاحد حامد

Customer Reviews

Be the first to write a review
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
0%
(0)
View full details