Kofa kay musafir by Ali Akbar Natiq | کوفہ کے مسافر از علی اکبر ناطق
Kofa kay musafir by Ali Akbar Natiq | کوفہ کے مسافر از علی اکبر ناطق
مَیں نے ناول( کوفہ کے مسافر )کیوں لکھا ؟
یہ ۱۹۸۴ کا زمانہ تھا ۔ مَیں اُس وقت چھ سات سال کا تھا ۔ میرے والد صاحب روزگار کے سلسلے میں عراق گئے ہوئے تھے ۔ ہمارا کچا گھر تھا ۔جس کے دو کوٹھے تھے ۔ ہمارے پاس اُن دنوں دو بھینسیں تھیں ۔ایک کوٹھے میں بھینسیں باندھتے تھے اور دوسرے مَیں ہم چار بہن بھائی اور میری والدہ رہتے تھے ۔ میری دادی اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہتی تھی ۔ یہ گھر بھی دراصل ہمارا ہی تھا فقط کوٹھا الگ تھا ۔ مَیں اپنی دادی کے ساتھ اُسی کی چارپائی پر سوتا تھا ۔ جب تک مجھے نیند نہ آتی دادی کربلا کی کہانیاں اور مختار کا بدلا لینے کے واقعات سناتی ۔ جب مَیں سو جاتا تو خود کو خواب کی حالت میں اُنھیں جنگوں میں موجود پاتا ۔ چنانچہ میرے دل و دماغ میں کربلا رچ بس گئی ۔ پھر یوں ہوا کہ والد صاحب کا جب بھی عراق سے خط آتا ،اُس میں کربلا ، کوفہ ، نجف ، سامرا ، کاظمین ،اور اِسی طرح مختلف مقدسات کی تصویریں ہوتیں ۔ جنھیں ہر وقت مَیں سینے سے لگائے پھرتا ۔اور جی چاہتا اڑ کر یہاں پہنچ جائوں اور کبھی وآپس نہ آئوں ۔ مجھے یہ تمام جگھیں اور واقعات ایسے لگتے جیسے یہ اِس دنیا سے پرے کسی دوسری دنیا کے ہوں اور مجھے اپنے والد پر رشک آتا تھا جو وہاں گھوم رہا تھا ۔ جب والد صاحب واپس آئے تو مَیں آٹھویں کلاس میں تھا اور یہ ۱۹۸۸ کا سِن تھا ۔ مَیں نے تب والد صاحب سے اُن علاقوں کے بارے میں تفصیل سے جاننا اور پوچھنا شروع کر دیا ۔ پھر آئمہ طاہرین کے بارے میں معلومات سُنتا رہا جو بہت دردناک اور تڑپا دینے والی تھیں ۔ یوں میرا اُن سے قرب بڑھتا چلا گیا اور میرے اندر ایک کسک پیدا ہوتی چلی گئی کہ آخر اُمت نے اُن کے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا ؟
تب مَیں نے لائبریوں سے لے کر خاص وہ کتابیں پڑھنا شروع کیں جنھیں تاریِخ اسلام کہا جاتا تھا ۔ یہ سینکڑوں کتابیں تھیں ۔ جیسے جیسے کتابیں پڑھتا چلا گیا ، میرا مطالعہ مجھے بتانے لگا کہ ہر لکھی ہوئی بات سچ نہیں ہے اور ہر بات جھوٹ بھی نہیں ہے ، لہذا مجھ میں روایت اور درایت کو پرکھنے کی قوت پیدا ہونے لگی ۔ ان چیزوں نے مجھے عجیب کیفیت میں مبتلا کر دیا ۔ جو کچھ میری سلیبس کی کتابوں میں لکھا تھا اُن میں سے اکثر تاریخی اعتبار سے بالکل لغو اور اور واہیات معلوم ہوا ۔ تب آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ لکھنے والوں نے زیادہ تر اپنی نفسانی خواہشات کو مدِ نظر رکھ کر لکھا ہے ۔ تاریخ و سیر و انساب و الرجال کی کتابوں سے لے کر جغرافیہ تک اکثر متضاد باتیں درج ہیں ۔ اور یہ سب کچھ پہلے خلیفہ کے دور سے شروع ہو کر بنی اُمیہ، بنی عباس اور پھر عثمانیوں کے ہزار سالہ دور تک چلتا رہا ۔ بادشاہوں نے اپنے ظلم و تشدد اور جبر کو جائز قرار دینے کے لیے سرکاری مورخین کے ذریعہ اہلِ بیت کے کردار کو بھی داغدار کرنے کی کوشش کی اور سرکاری مفتیوں اور مولویوں کے ذریعے دین کے امرونہی کا چہرہ دھندلا دیا ۔ اِس حالت کو دیکھ کر میری جستجو اور تجسس بڑھتا چلا گیا ۔
پھر جب مَیں خود عراق میں گیا تو مجھے محسوس ہوا ہمارے لکھنے والوں نے کوفہ کے حوالے سے بھی بہت زیادہ غلط بیانی سے کام لیا ہے اور جو کچھ لکھا گیا ہے یا لکھا جا رہا ہے اُسے یا تو سابقہ کے نقشِ قدم پر ہی رکھ کر لکھا جا رہا ہے اور تحقیق کی ذرا کوشش نہیں کی گئی یا ٹھیک سے لکھا نہیں جا رہا اور اتنا خشک عبارت میں ہے کہ پڑھنے والے اُسے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے ۔
چنانچہ مَیں نے ارادہ کیا مَیں اِسے ناول کے طور پر لکھوں ۔ واقعات تاریخی طور پر دروست ہوں ، آسان فہم ہوں اور خاص و عام کو کم از کم کربلا کے بارے میں درست معلومات دیتے ہوں ۔
یہ کام بہت مشکل اور صبر آزما تھا ۔ بچپن کا مطالعہ تو ایک طرف پچھلے چھ سال میں کم و بیش ساڑھے چار سو کتابوں کا مطالعہ کیا ،اور بعض اوقات ایک لائن لکھنے کے لیے پانچ پانچ سو صفحات کی پوری کتاب پڑھنا پڑھی ۔
اب جب آپ اِسے پڑھیں گے تو حیرت و استعجاب میں پڑ جائیں گے کہ اہلِ بیت پر صرف قتل و غارت گری کا ظلم نہیں ہوا ،اُن پر قلمی ظلم و ستم بھی کیا گیا ۔ مثلاً یہاں صرف ایک مثال دیتا ہوں ،
یہ بات کی جاتی ہے کہ جب امام کربلا پہنچے اور اُن پر گھیرا تنگ ہو گیا تو اُنھوں نے عمرو بن سعد سے تین شرطیں پیش کیں اورکہا اول مجھے جہاد کے لیے کافروں کی سرحدوں پر بھیج دیں ، دوئم مدینہ اور مکہ وآپس جانے دیں ،سوئم مجھے شام میں یزید کے پاس بھیج دیں تاکہ مَیں وہاں اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا ۔ اور اُس نے یہ لکھ کر ابنِ زیاد کو بھیج دیں ۔
یہ اتنی بڑی بکواس ہے کہ اِس کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اِن میں سے حسینؑ نے ایک بھی جملہ نہیں کہا ۔ بلکہ سرے سے یہ شرط والا واقعہ پیش ہی نہیں آیا ۔
یہ اور اسی طرح کی مزید کئی باتیں ۔ خیر ناول میں بہت زیادہ چیزیں ہیں ۔ مجھے مولا نے اتنی قدرت عطا کی ہے اور یہ بھی انھی کا صدقہ ہے کہ آپ اِس ناول میں باقاعدہ تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے وقوع ہوتا دیکھ لیں گے ۔ آپ کے تمام سوال اور تمام جواب اِسی میں موجود ہیں ۔
یہ ۸۲۵ صفحات کا ناول ہے
کل ناول کو پریس میں دینے جا رہا ہوں ۔
علی اکبر ناطق
Share
Top Pick of The Month